عرضی دی تو نکلی دھوپ
عرضی دی تو نکلی دھوپ
کہرے نے ڈھک لی تھی دھوپ
دو قدموں پر منزل تھی
زوروں سے پھر برسی دھوپ
بوڑھی اما بنتی تھی
گرم سوئیٹر جیسی دھوپ
دھوپ میں ترسے سائے کو
سائے میں یاد آئی دھوپ
بھوکی ننگی بستی نے
کھائی جوٹھن پہنی دھوپ
پھنگی پر آ بیٹھی دیکھ
کتنی شاطر نکلی دھوپ
سائے میں ہی رہتے ہو
دیکھی بھی ہے تیکھی دھوپ
غربت کے چولھے پے ہے
فاقوں کی پھیکی سی دھوپ
غزلوں کے چرخے پے نت
احساسوں کی کاتی دھوپ
ڈھلتی شام نے دیکھی ہے
لاٹھی لے کر چلتی دھوپ
چائے کے کپ میں ابلی
اخباروں کی سرخی دھوپ
جیون کیا ہے بول خیالؔ
کھٹی میٹھی تیکھی دھوپ