جو کچھ تھا مقدر میں گوارا تو نہیں تھا

جو کچھ تھا مقدر میں گوارا تو نہیں تھا
در پردہ کہیں ان کا اشارا تو نہیں تھا


جتنی تھی کھٹک سانس کی کل نغمۂ جاں تھی
کیا تم نے مجھے ہنس کے پکارا تو نہیں تھا


تا زیست مجھے جان حزیں بخشنے والے
اس میں کوئی انداز تمہارا تو نہیں تھا


رو رو کے قیامت کا لیا نام کسی نے
کوئی تری امید کا مارا تو نہیں تھا


ٹوٹے ہوئے کیوں دل کو مرے دیکھ رہے ہو
آنسو تھا مری صبح کا تارا تو نہیں تھا


مدت سے بڑا نام ہے فردوس کا کیفیؔ
گیسو کو کہیں اس نے سنوارا تو نہیں تھا