جو اس طرح سے میں خود کو پچھاڑ لیتا ہوں
جو اس طرح سے میں خود کو پچھاڑ لیتا ہوں
بنا بنایا تعلق بگاڑ لیتا ہوں
میں نا سمجھ تو نہیں رنجشوں سے لڑتا پھروں
میں رخ بدل کے محبت کی آڑ لیتا ہوں
جو گرد ذہن پہ گرتی ہے بد گمانی کی
میں گاہے گاہے اسے خود ہی جھاڑ لیتا ہوں
میں راحتوں سے کبھی مطمئن نہیں ہوتا
میں سوچ سوچ کے خوشیاں اجاڑ لیتا ہوں
یہ درد بھی یوں ہی اٹکھیلیاں نہیں کرتے
کبھی کبھی میں انہیں چھیڑ چھاڑ لیتا ہوں
تمہارے دکھ میں کوئی اور دکھ ملاتا نہیں
میں شب گزار کے خیمہ اکھاڑ لیتا ہوں
کتاب زیست تجھے غم نہیں تھماتا کوئی
میں دن گزار کے صفحے کو پھاڑ لیتا ہوں