جو چاہیے تھا وہ نہ ملا آسمان سے
جو چاہیے تھا وہ نہ ملا آسمان سے
ٹھکرا کے لوٹ آئے ستاروں کو شان سے
یہ سوچ کر کے چھاؤں میں بیٹھا نہ میں کبھی
ٹوٹے نہ حوصلہ ترا میری تھکان سے
تلووں کو چاٹنے سے ہر اک کام بن پڑا
محنت نہ دے سکی وہ جو پایا زبان سے
لیکن وہ زخم بھر گیا دہشت نہیں گئی
سب یاد آنے لگتا ہے اس کے نشان سے
ہم سے ذرا سا آگے اگر ہو بھی تم تو کیا
ہم اپنے آپ سے بنے تم خاندان سے
لوٹا جو خالی ہاتھ تو میں مسکرا دیا
امید بھی نہیں تھی تیرے آستان سے
اے دل تو راہ عشق کی ٹھوکر سے لے سبق
جو ہو گیا سو ہو گیا آئندہ دھیان سے
سر سے بھٹک رہا ہے تمہارا ہر ایک لفظ
دل کیا سنے گا جو نہ سنا جائے کان سے