جو اب بھی ان کی یادیں آئیاں ہیں
جو اب بھی ان کی یادیں آئیاں ہیں
تو آنکھیں اشک خوں برسائیاں ہیں
پرانے زخم کر دیتی ہیں تازہ
ستم گر کس قدر پروائیاں ہیں
یہ روز و شب یہ صبح و شام کیا ہیں
نگار وقت کی انگڑائیاں ہیں
اگر دل ہی ہوا شائستہ غم
کہاں دنیا میں پھر رعنائیاں ہیں
یہ کیا قصہ نکالا تو نے ناصح
دل بیتاب پر بن آئیاں ہیں
سنبھل جا اے دل ناداں سنبھل جا
کہ آگے ہر طرف رسوائیاں ہیں
نکالے سب نے اپنے اپنے مطلب
سخن میں کس قدر گہرائیاں ہیں
بنا ڈالا زمانہ بھر کو دشمن
بلائے جاں مری دانائیاں ہیں
مقام شکر ہے یہ بھی تو اظہرؔ
مقدر میں اگر تنہائیاں ہیں