جس میں نہ خوشی ہو وہ محبت نہیں اچھی
جس میں نہ خوشی ہو وہ محبت نہیں اچھی
کلفت سے جو خالی ہو وہ راحت نہیں اچھی
کہتا ہے حسینوں کی محبت نہیں اچھی
اور ناصح کم فہم یہ عادت نہیں اچھی
تم پر جو نہ آ جائے تو وہ دل نہیں اچھا
تم پر جو نہ مائل ہو طبیعت نہیں اچھی
بے دل لئے دیتے ہو جو تم غیروں کو بوسے
نقصان ہے اس میں یہ مروت نہیں اچھی
دلوائیں مجھے گالیاں غیروں سے سر بزم
او شوخ یہ در پردہ شرارت نہیں اچھی
دیوانے نہیں ہم جو گرفتار بلا ہوں
واقف ہیں کہ ان زلفوں کی الفت نہیں اچھی
صابرؔ نے سر بزم جو چھیڑا تو وہ بولے
کمبخت یہی تو تری عادت نہیں اچھی
صابرؔ شجر خشک سے امید ثمر کیا
جو فیض سے خالی ہو وہ خدمت نہیں اچھی