جس کو پڑی ہو اپنے گریباں کے تار کی

جس کو پڑی ہو اپنے گریباں کے تار کی
روئے خزاں کو خیر منائے بہار کی


معراج اس کو کہیے ہمارے غبار کی
ورنہ یہ خاک اور ہوا کوئے یار کی


پژمردہ پھول ہوں چمن روزگار کا
تصویر ہوں دورنگئ لیل و نہار کی


نیچی نگاہ آڑ میں مژگاں کی الامان
صیاد جیسے گھات میں بیٹھے شکار کی


چین جبین یار کی چھریاں وہیں چلیں
جوں ہی تڑپ بڑھی نگہ‌ انتظار کی


منہ فق ہے اس طرح مری صبح فراق کا
جیسے ہو پہلی شام غریب الدیار کی


بیتابؔ ختم کر گئے استاد نامدار
جادو نگاریاں قلم سحر کار کی