شادمانی کا کبھی غم کا کبھی جوش رہا
شادمانی کا کبھی غم کا کبھی جوش رہا
ایک سودا رہا جب تک کہ مجھے ہوش رہا
جز تری یاد کے سب دل سے فراموش رہا
مرتے مرتے دیوانے کو یہ ہوش رہا
رخ پر نور سے بس ان کا الٹنا تھا نقاب
کون کمبخت تھا ایسا کہ جسے ہوش رہا
یہ بھی احساں ہے جو اس نے نہ دیا کوئی جواب
شوق امید کا حامی لب خاموش رہا
بے دھڑک سامنے محشر کی وہ آنہ تیرا
دیکھ لینا جو کسی ایک کو بھی ہوش رہا
کس سے فریاد ستم کرتے ملا جب کہ نہ تو
تو ملا جب تو ستم تیرا فراموش رہا
راز سر بستۂ مے خانہ نہ کھلنے پایا
آشنائے لب ساغر لب مے نوش رہا
درد رہ رہ کے مرے دل میں اٹھا کرتا ہے
تیرا احساں کہ تجھے میں نہ فراموش رہا
بار احساں ہے مرے سر پہ ترا او قاتل
سر جدا ہونے پہ بھی میں نہ سبک دوش رہا
درد اٹھتے ہی تڑپنے لگانا محرم راز
جو ادا سے تری واقف تھا وہ خاموش رہا
کیا کہوں موت نے کس راز کی دی آ کے خبر
بات ہی کچھ تھی وہ ایسی کہ میں خاموش رہا
جان بیتابؔ کی آخر شب تنہائی نے لی
تو کہاں شام سے او وعدہ فراموش رہا