ابھی گزرے دنوں کی کچھ صدائیں شور کرتی ہیں
ابھی گزرے دنوں کی کچھ صدائیں شور کرتی ہیں دریچے بند رہنے دو، ہوائیں شور کرتی ہیں یہی تو فکر کے جلتے پروں پہ تازیانہ ہے کہ ہر تاریک کمرے میں دعائیں شور کرتی ہیں کہا نا تھا حصار اسم اعظم کھینچنے والے یہاں آسیب رہتے ہیں بلائیں شور کرتی ہیں ہمیں بھی تجربہ ہے بے گھری کا چھت نہ ہونے ...