گزر گیا میکدے کا موسم گزر گیا ہے سبو کا موسم

گزر گیا میکدے کا موسم گزر گیا ہے سبو کا موسم
وہ خلوتوں کا گلاب موسم وہ آرزو کی نمو کا موسم


عبث ہے اب یہ تمنا ان کی کہ زخم سارے رفو کریں گے
یہ چاک دامن سمیٹ لوں اب چلا گیا وہ رفو کا موسم


کہ نام تیرا کڑھا ہو جس پہ اسی چنریا کی آرزو میں
گنوائی بالی عمریا اپنی گزر گیا آرزو کا موسم


تجھے ہی فرصت نہ تھی میسر تو اپنا قصہ کسے سناتے
سو تشنہ اپنی رہی کہانی گزر گیا گفتگو کا موسم


خزانے علم و ہنر کے پیارے تمہارے اپنے وجود میں ہیں
تمہیں کہاں جستجو کی فرصت نہیں رہا جستجو کا موسم


تمہارے پرکھوں کی اس زمیں کو نہ باد و باراں کی کچھ کمی تھی
تمہارے صرف نظر سے لیکن ہوا ہوا وہ نمو کا موسم