جگر کے خون سے تزئین بال و پر کر دی
جگر کے خون سے تزئین بال و پر کر دی
چمن اسیر نے یوں زندگی بسر کر دی
حکایت غم دل یوں بھی مختصر ہی تھی
تمہارے کہنے سے لو اور مختصر کر دی
مری وفا کی کہانی سے کون واقف تھا
تمہارے جور نے تشہیر در بدر کر دی
قدم بڑھاؤ کہ منزل قریب ہے شاید
تبھی تو راہ حریفوں نے تنگ تر کر دی
یہ کس جہان تمنا کا پھر خیال آیا
کہ جس خیال نے ہر شے عزیز تر کر دی
شبان زلف کی باتیں طلوع رخ کی خیر
تمام عمر عبادت میں مختصر کر دی
نئے ہیں جام و سبو بادہ و خمار نیا
اور ہم نے کہنہ شرابی میں شب سحر کر دی
بہت ہی خوب تھی روداد موسم ہستی
تری نگاہ کے سائے نے خوب تر کر دی
نہ منزلوں کی خبر ہے نہ راستوں کا پتا
متاع قلب و نظر نذر راہ پر کر دی
نئے شعور نئے فلسفے نئی اقدار
عیار عشق نے ہر کائنات سر کر دی