جذبۂ سرد ستم گر نہیں اچھا لگتا
جذبۂ سرد ستم گر نہیں اچھا لگتا
تیرے چہرے پہ دسمبر نہیں اچھا لگتا
آئنہ دیکھ تو لیں دیکھ کے حاصل کیا ہے
اب یہاں اپنا ہی پیکر نہیں اچھا لگتا
غالباً آپ نے سچ بولا ہے سو بھکتو اب
حاکم وقت کا تیور نہیں اچھا لگتا
اک وہی شخص لگے جان سے پیارا ہم کو
اور کبھی وہ بھی سراسر نہیں اچھا لگتا
بھیڑ ہے شور ہے اور دائمی اکتاہٹ ہے
شہر کا بس یہی منظر نہیں اچھا لگتا
خیر یہ ملنا بچھڑنا تو لگا رہتا ہے
ہاں مگر یادوں کا دفتر نہیں اچھا لگتا