جیسے بھی جس طرح بھی بسر کر رہے ہیں لوگ
جیسے بھی جس طرح بھی بسر کر رہے ہیں لوگ
دن پورے زندگی کے مگر کر رہے ہیں لوگ
کچھ بھی نہیں نگاہ جدھر کر رہے ہیں لوگ
رسوا فضول ذوق نظر کر رہے ہیں لوگ
تاروں کو نقش پائے بشر کر رہے ہیں لوگ
کیا معرکہ حیات کا سر کر رہے ہیں لوگ
شیطانیت عروج پہ ہے بات صاف ہے
انسانیت کا خون اگر کر رہے ہیں لوگ
محلوں ہی میں بسر نہیں ہوتی یہ زندگی
فٹ پاتھ پر بھی اپنی بسر کر رہے ہیں لوگ
ایک رب کے در پہ سجدے کی فرصت نہیں جمیلؔ
سجدے ہزاروں در پہ مگر کر رہے ہیں لوگ