ہاتھ پھیلانے نہیں دیتی شرافت میری
ہاتھ پھیلانے نہیں دیتی شرافت میری
پوری کر دیتا ہے معبود ضرورت میری
میری شہرت سے ہوئے خوش مرے احباب مگر
راس آئی نہ رقیبوں کو یہ شہرت میری
مشکلوں میں بھی رکھو صبر سلامت اپنا
مجھ سے ہر لمحہ مخاطب رہی غیرت میری
دار پہ کھینچو یا سولی پہ چڑھا دو مجھ کو
پھر بھی سچ کہنے سے باز آئے نہ فطرت میری
خدمت خلق کا شاید یہ ہے انعام جمیلؔ
ہر کوئی کرنے لگا شہر میں عزت میری