جہاں سے ہارنے پر دوستو ایسا بھی ہوتا ہے

جہاں سے ہارنے پر دوستو ایسا بھی ہوتا ہے
حقیقت چھوڑ کر انساں یہاں سپنوں میں کھوتا ہے


چراغوں کی ہمیشہ قدر ہوتی ہے اندھیروں میں
زمانہ جوں کسی کے چھوڑ کر جانے پہ روتا ہے


کبھی رتبہ دیا یاروں کو گلدستے کے پھولوں کا
سجا کر پھر نئے پھولوں کو تو رشتے ڈبوتا ہے


غلط کچھ کام انساں زندگی میں کر بھی لے تو کیا
ہمیں یہ دیکھنا ہے کیا اسے افسوس ہوتا ہے


کہاں دکھتا ہے ہم کو کیا گزرتی ہے کسانوں پر
کمی اکثر ثمر کی ڈر ضرر کا لے کے سوتا ہے


وہ پائل پاؤں میں تیرے وہ بندی تیرے ماتھے پر
تصور بس یہی اکثر میری آنکھوں میں ہوتا ہے


سمجھ یہ حال ہے تیرا یہ مستقبل بھی تیرا ہے
قدم آگے بڑا حاصلؔ تو کیوں ماضی پہ روتا ہے