جب یہ پنے کتابوں کے گل جائیں گے

جب یہ پنے کتابوں کے گل جائیں گے
مول بھی کیا کہانی کے ڈھل جائیں گے


راستے تو رہیں گے ہمیشہ وہیں
چلنے والے ہی ان پر بدل جائیں گے


یاد پھر غم کئے تو نے اپنے اگر
جم گئے اشک جو پھر پگھل جائیں گے


رائیگاں یہ دعائیں نہیں جائیں گی
دیکھنا اب مقدر بدل جائیں گے


لے کے امید کانٹوں پہ چلتا رہا
تم ملے تو برے دن بھی ٹل جائیں گے


ہے ضرورت انہیں کچھ دلاسوں کی بس
لوگ بستی کے یہ پھول پھل جائیں گے


ایک منزل تو حاصل نہیں زیست کا
پھر نئے راستوں پر نکل جائیں گے


گنگنائے بنا رہ نہ پائیں گے لوگ
سن کے حاصلؔ کی جو یہ غزل جائیں گے