کل تک جو کچھ نہ تھا مرا ایمان ہو گیا

کل تک جو کچھ نہ تھا مرا ایمان ہو گیا
اک عام آدمی سے میں انسان ہو گیا


دیکھے تھے خواب میں نے بہت زندگی کے دوست
کیا گھر اسی لئے مرا سنسان ہو گیا


خود کو بھی بھول بیٹھا تھا میں تیرے واسطے
تو اور کیوں کسی کی یہاں جان ہو گیا


ملنے کی چاہ مل کے بڑھی تجھ سے اور بھی
پورا اگرچہ دل کا یہ ارمان ہو گیا


تو عمر بھر نہ ساتھ دے چشم کرم ہی کر
مانیں گے یہ بھی اک ترا احسان ہو گیا


کل تک جو مجھ پہ جان چھڑکتا تھا آج کیوں
دکھ درد سے بھی میرے وہ انجان ہو گیا


صدیوں کے بعد لوٹ کے آیا تھا کیسے پر
رسم زمانہ دیکھ کے حیران ہو گیا


تھا خوش مزاج بھی نئے جذبے کے ساتھ جو
دو چار گام چل کے وہ بے جان ہو گیا


چھپوا کے چند غزلیں ہی کہتا پھرے ہے وہ
لو آج میں بھی صاحب دیوان ہو گیا


شاگرد کامیاب تو استاد کامیاب
ہے فکر مجھ کو وہ مری پہچان ہو گیا


حاصلؔ تجھے تو فکر تھا خود پر بہت کبھی
تو کیوں کسی کے کھیل کا سامان ہو گیا