جہاں سے بے تعلق آپ سے بیگانہ ہو جائے
جہاں سے بے تعلق آپ سے بیگانہ ہو جائے
بڑا ہوشیار ہے وہ جو ترا دیوانہ ہو جائے
رہیں باقی نہ اس کے ہوش وہ دیوانہ ہو جائے
کرم جس پر ترا اے جلوۂ جانانہ ہو جائے
نہ کیوں وہ بے نیاز شیشہ و پیمانہ ہو جائے
تمہاری مست مست آنکھوں کا جو مستانہ ہو جائے
ادا و ناز اور انداز کا شیدا نہ ہو جائے
مرا نازوں کا پالا دل کہیں ان کا نہ ہو جائے
جبین شوق ہو سنگ در جاناں سے مس ایسی
جبین شوق ہی سنگ در جاناں نہ ہو جائے
حقیقت میں وہی دل مستحق ہے دل دکھانے کا
تری شمع رخ روشن کا جو پروانہ ہو جائے
کرامت پینے والوں کی ابھی دیکھی نہیں واعظ
جہاں جم جائیں بادہ کش وہیں پیمانہ ہو جائے
صدائے صابرؔ غمگیں سنی جب اپنے کوچے میں
کہا کہ کیا کریں کوئی اگر دیوانہ ہو جائے