جگا رہا ہے ترا غم نئے نئے جادو

جگا رہا ہے ترا غم نئے نئے جادو
امنڈ رہی ہے غزل سے بہار کی خوشبو


چہک رہے ہیں تصور کے باغ میں پنچھی
بھٹک رہے ہیں خیالوں کے دشت میں آہو


لچک رہا ہے فضاؤں میں خواب کا ریشم
بکھر گئے ہیں افق تا افق ترے گیسو


نہ جانے کون سی منزل پہ آ گیا ہوں میں
نہ جانے کون سی بستی میں رہ گئی ہے تو


مرے گلے میں حمائل ہیں ناز سے اب تک
مجھے نہ چھوڑ سکے تیری یاد کے بازو


کدھر ہو محتسبو پھر کوئی نیا منصور
فراز دار سے چھلکا رہا ہے جام و سبو


کبھی تو بام ثریا کو چوم ہی لے گا
بہت لطیف ہے آدم کی جنبش ابرو