جب تلک یہ سوچوں کا زاویہ نہ بدلے گا

جب تلک یہ سوچوں کا زاویہ نہ بدلے گا
منزلیں نہ بدلیں گی راستہ نہ بدلے گا


دیکھ کر لکیروں کو یہ کہا نجومی نے
درد ہی مقدر ہے زائچہ نہ بدلے گا


عشق کی طبیعت میں مستقل مزاجی ہے
مشکلوں کو سہہ لے گا راستہ نہ بدلے گا


اپنی اپنی فطرت کی سب لڑائی لڑتے ہیں
خیر و شر کا آپس میں معرکہ نہ بدلے گا


عشق کی امامت میں فاطمہؔ ہے چل نکلی
چاہے کچھ بھی ہو جائے فیصلہ نہ بدلے گا