جب سے پڑی ہے ان سے ملاقات کی طرح
جب سے پڑی ہے ان سے ملاقات کی طرح
آتی نہیں گرفت میں حالات کی طرح
آیا جو لکھتے لکھتے ترے قرب کا خیال
خط بھی الجھ گیا ہے مری بات کی طرح
تنہائی میں ملو تو تمہیں دل کے آس پاس
دکھلائیں ایک شہر طلسمات کی طرح
یوں ہی جو باندھتے رہے تمہید آج بھی
یہ شب بھی بیت جائے گی کل رات کی طرح
انوارؔ یوں تو دل بھی ہے اک انجمن مگر
آسیب میں گھری ہوئی بارات کی طرح