جب سے ہم بدنام بہت ہیں
جب سے ہم بدنام بہت ہیں
ہم سے جہاں کو کام بہت ہیں
آئینے میں کیا کیا دیکھیں
اک چہرہ اور نام بہت ہیں
لا سورج کرنوں کی سولی
راتوں پر الزام بہت ہیں
لینا ہو تو لے لو دعائیں
درویشوں کو کام بہت ہیں
میرے جیسے لوگ بہت کم
البتہ ہم نام بہت ہیں
شاعر کی پہچان نہ پوچھو
گمناموں کے نام بہت ہیں
ڈر ہے کہیں پہچان نہ کھو دے
اب صولتؔ کے نام بہت ہیں