جب جب تیری آنکھ سے ٹپکا آنسو شبنم روئی ہے

جب جب تیری آنکھ سے ٹپکا آنسو شبنم روئی ہے
جیسے شمع جلی ہے شب بھر تھک کے صبح کو سوئی ہے


جو بوؤ گے وہ کاٹو گے قدرت کا قانون ہے یہ
ہم تو کیکر کاٹ رہے ہیں کیسی فصل یہ بوئی ہے


خون کے دریا تیر کے ہم نے آزادی حاصل کی تھی
پر ساحل پہ پہنچ کے ہم نے خود ہی ناؤ ڈبوئی ہے


مظلوموں نے پامالوں نے ظلم سہے ہیں صدیوں سے
ہر اک دور میں ان لوگوں نے بس سولی ہی ڈھوئی ہے


رستے رستے خار بچھے ہیں منزل منزل شعلے ہیں
دل کی راہ پہ چل کر ہم نے اپنی ہستی کھوئی ہے


بسملؔ عمر گنوائی سچ پر ایماں پر قربان ہوئے
جب انصاف کی آس لگائی تب تب آنکھ بھگوئی ہے