جب جب پری خیال کی تصویر کھینچیے
جب جب پری خیال کی تصویر کھینچیے
ہر رنگ رنگ خواب کی تعبیر کھینچیے
خوش رنگ آپ ہیں تو تخیل کے رنگ سے
غزلوں میں لالہ فکر کی تصویر کھینچیے
ہر ہر قدم پہ خون رلاتے ہیں کس لئے
ہر نقش داغ زخم کی توقیر کھینچیے
تاریکیاں کھرچ کے تو کر لیجے پہلے صاف
دیوار دل پہ پھر کوئی تصویر کھینچیے
دل کے سفر کا نام ہے اک درد کا بہاؤ
پھر اس سفر میں کیوں کوئی زنجیر کھینچیے
دشمن ہیں لیس لیس تو پھر کیا بلا ہوئی
چلئے کمان اٹھائیے اور تیر کھینچیے
یادوں کا عکس ہے نہ تخیل کا نقش ہے
پھر لب پہ کس کے نام کی تحریر کھینچیے
گھبرا کے دل نہ رو پڑے دشت خیال میں
ظلمت کے ہم شکار ہیں تنویر کھینچیے
ہو شب کی خامشی کہ ہو ہنگامۂ سحر
اخترؔ ضرور نالۂ دلگیر کھینچیے