جب ہوئی خاک تو اکسیر ہوئی ہے بابا
جب ہوئی خاک تو اکسیر ہوئی ہے بابا
آرزو مٹنے سے تاثیر ہوئی ہے بابا
داغ ہیں قلب و جگر چھٹ گئے ارباب وفا
زندگی اب مجھے تعزیر ہوئی ہے بابا
درد ہی چارہ گر اور درد ہی درماں نکلا
درد ہی درد کی تدبیر ہوئی ہے بابا
کوئی بتلا نہ سکا طالب و مطلوب کا فرق
یوں طریقت کی بھی تعبیر ہوئی ہے بابا
کربلا دھوپ ہے تو پیاس ہے دریائے فرات
اک صداقت یوں ہی تحریر ہوئی ہے بابا
خاک پر سجدہ ہو قاتل کی چھری شہ رگ پر
ہر صدا نعرۂ تکبیر ہوئی ہے بابا
نوک نیزہ پہ کوئی بولتا قرآن بھی تھا
اس طرح سے کبھی تفسیر ہوئی ہے بابا