جب بھی سامان سکون دل و جاں ہونے لگا

جب بھی سامان سکون دل و جاں ہونے لگا
چوٹ کھائی تھی کبھی اس کا گماں ہونے لگا


اب تری انجمن ناز کوئی راز نہیں
اب مرا درد بھی لفظوں میں بیاں ہونے لگا


زیست کیا چیز ہے کوئی بھی نہ پہچان سکا
سرخ رو کون ہوا کس کا زیاں ہونے لگا


شعلۂ گل نے لیا دامن گلچیں سے خراج
خود بہاروں کو بھی احساس خزاں ہونے لگا


چارہ گر چاک گریباں کی خبر لینے لگے
عام پھر شکوۂ بیداد گراں ہونے لگا


وقت کے ساتھ تو احساس بھی مٹ جاتا ہے
کس کو معلوم کہ اب درد کہاں ہونے لگا


کسی طوفان کی آمد ہے خدا خیر کرے
مہرباں ہم پہ جو وہ دشمن جاں ہونے لگا