جب عزم کے شعلوں کو ہمت نے ہوا دی ہے

جب عزم کے شعلوں کو ہمت نے ہوا دی ہے
طوفاں نے ہی ساحل کی تصویر دکھا دی ہے


شعلوں سے گلہ کیسا بجلی سے شکایت کیا
گلشن کے نگہباں نے ہر شاخ جلا دی ہے


چاہا تھا کریں ان سے کچھ شکوۂ بے مہری
لب ہلنے سے پہلے ہی سوگند کھلا دی ہے


اک وہ بھی ہیں مرتے ہیں جو ننگ وفا بن کر
ہر وار پہ ہم نے تو قاتل کو دعا دی ہے


کانپ اٹھا ہے جانے کیوں ہر تار نفس سنبلؔ
جب میرے بزرگوں نے جینے کی دعا دی ہے