دل میں زخموں کی نئی فصل اگانے نکلے

دل میں زخموں کی نئی فصل اگانے نکلے
درد کے پھول بیاباں میں کھلانے نکلے


ہر عمارت پہ نئے سال کا کتبہ دیکھا
پہنچے نزدیک تو آثار پرانے نکلے


پہلے ہر در پہ رکھے شعلہ بیانی کے دیے
جل اٹھا شہر تو پھر آگ بجھانے نکلے


چاند جب روٹھ کے رخصت ہوا بام و در سے
لوگ تپتے ہوئے سورج کو منانے نکلے


ہر قدم تلخیٔ تعبیر کے پتھر برسے
خواب زاروں کو کبھی ہم جو سجانے نکلے


دل نے جب قید تعلق سے رہائی مانگی
قربتوں کے لیے کچھ اور بہانے نکلے