گزرے ہیں ہم پہ ایسے بھی لمحے کبھی کبھی

گزرے ہیں ہم پہ ایسے بھی لمحے کبھی کبھی
دل رو پڑا ہے سن کے لطیفے کبھی کبھی


صحرا سے تشنگی کا سبب پوچھتے ہو کیا
دریا بھی ہم نے دیکھے ہیں پیاسے کبھی کبھی


گم کردہ راہ زیست سہی اس کے باوجود
پوچھے ہیں ہم سے خضر نے رستے کبھی کبھی


اے نا خدائے وقت نہ اتنا غرور کر
ڈوبے ہیں ساحلوں پہ سفینے کبھی کبھی


ہر دل کو آپ آئنہ خانہ نہ جانیے
پتھر سے سخت ہوتے ہیں شیشے کبھی کبھی


سنبلؔ ہوا ہے یہ بھی کہ غزلوں کے روپ میں
نازل ہوئے ہیں ہم پہ صحیفے کبھی کبھی