جان کے اس نے یوں نہ پڑھا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
جان کے اس نے یوں نہ پڑھا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
میری غزل کا وہ مقطع ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
رنگ حنا میں خون وفا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
آج بھی اس کا زخم ہرا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
ترک وفا کی بات نہ پوچھو دل کے ہزاروں پہلو ہیں
بعد میں وہ بھی پچھتایا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
باہر باہر خاموشی ہے لیکن اس خاموشی میں
اندر اندر شور مچا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
پلکیں ہیں کچھ بھاری بھاری اترا اترا ہے چہرہ
رات کو وہ بھی سو نہ سکا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
جب بھی دیکھو اس پتھر پر کائی جمی سی رہتی ہے
اس کے نیچے اک چشمہ ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
نیند نہیں کیوں آتی شبنمؔ رات گزرتی جاتی ہے
شاید وہ بھی جاگ رہا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے