عتاب میں جو تمہارے دہن سے نکلے ہیں
عتاب میں جو تمہارے دہن سے نکلے ہیں
وہ تیر تھے کہ شرارے بدن سے نکلے ہیں
فسون جلوہ گری کا کوئی اثر نہ ہوا
بہ قید ہوش تری انجمن سے نکلے ہیں
کوئی مقام اماں اب نظر نہیں آتا
بھری بہار میں شعلے چمن سے نکلے ہیں
غم حیات نے بخشی فسردگی کیسی
یہ آدمی ہیں کہ مردے کفن سے نکلے ہیں
نہ جانے کب سے مقدر تھی دشت پیمائی
ہزار خار مرے پیرہن سے نکلے ہیں
یہ رنگ صبح بہاراں یہ اپنی حیرانی
غضب خدا کا اندھیرے کرن سے نکلے ہیں