عشق میں کون کامیاب ہوا
عشق میں کون کامیاب ہوا
عشق جس نے کیا خراب ہوا
دیکھنا ہوں گی رخنہ گر نظریں
مانع دید اگر نقاب ہوا
ربط باہم نے کر دیا مشکل
اس کا میں وہ مرا جواب ہوا
جل گیا طور غش ہوئے موسیٰ
جب ترا حسن بے نقاب ہوا
دیکھ کر آپ میرے اشکوں کی
پانی پانی در خوش آب ہوا
آئی پیری گئیں امنگیں سب
ختم افسانۂ شباب ہوا
جب چلے چال وہ قیامت کی
اٹھ کے فتنہ بھی ہم رکاب ہوا
اس قدر خوگر کرم ہوں میں
مہر سمجھا اگر عتاب ہوا
لفظ کن کا تھا مختصر سا لفظ
در حقیقت یہ اک کتاب ہوا
بحر عالم میں سب ہیں دم بھر کے
غم ہوئے میں ہوا حباب ہوا
اب کہاں راتیں عیش کی صابرؔ
وہ زمانہ خیال و خواب ہوا