عشق کرنا تھا عشق کر بیٹھے

عشق کرنا تھا عشق کر بیٹھے
ہم نے آفت بلائی گھر بیٹھے
سب نئی روشنی کے چکر میں
تیرگی کو قبول کر بیٹھے


جو غلط ہے اسی کو اٹھنا ہے
ہم ہیں اپنے مقام پر بیٹھے


چلئے خود سے ہی بات کی جائے
کون فرصت میں رات بھر بیٹھے


اک ذرا ہنس کے بات کیا کر لی
آپ لائن کراس کر بیٹھے


جب نہیں بیچنا تھے اشک تمہیں
کیوں یہاں لے کے چشم تر بیٹھے