انتظار
چہرے پہ دید بان تھے ہونٹوں پہ کچھ سراب
سانسوں میں احتجاج تھا نبضوں میں انقلاب
دل جیسے سونی شام کا سورج بجھا بجھا
اور جسم جیسے تیر کماں پر چڑھا ہوا
اعصاب کے تناؤ سے بجتا تھا انگ انگ
ہر رنگ آرزو میں ملا تھا لہو کا رنگ
سوچوں پہ بادبان تنے تھے غبار کے
پنچم کے سر پہ تار چڑھے تھے ستار کے
اک رات میں ہزارہا منظر بدل گئے
لمحات پھیل پھیل کے صدیوں میں ڈھل گئے
ہیرے پہ برگ گل کی نزاکت کا وار تھا
کس شخص کا نہ جانے مجھے انتظار تھا