ان ہونٹوں نے پوچھا اس پیشانی سے

ان ہونٹوں نے پوچھا اس پیشانی سے
تم تو ہم کو بھول گئے آسانی سے


برف کا ٹکڑا دھوپ میں رکھ کر سوچ رہے
یعنی پانی نکلے گا اب پانی سے


یار اندھیرا کر پہلے اس کمرے میں
چڑھ جاتا ہوں ورنہ میں عریانی سے


لیجیے اک مصرعے میں سارا افسانہ
اک تارے کو ہجر ملا تابانی سے


آج کا مجنوں کیا کرتا ہے دیکھو گے
مجھ کو باہر آنے دو ویرانی سے


اس لڑکے نے کس سے عشق کیا ہوگا
لوگوں نے دیکھا ہم کو حیرانی سے