ان بیابانوں میں بستا تھا نگر پہلے کبھی
ان بیابانوں میں بستا تھا نگر پہلے کبھی
بے گھروں کا بھی ہوا کرتا تھا گھر پہلے کبھی
خوب سے بھی خوب صورت پھول اس گلشن میں ہیں
آپ سا دیکھا نہیں ہم نے مگر پہلے کبھی
اس کی گودی میں کسی بچہ سا سر کو رکھ دیا
ویسے تو جھکتا نہیں تھا اپنا سر پہلے کبھی
اس کے پیراہن یقیناً کھونٹیوں پر ہیں ٹنگے
یوں کہاں روشن ہوا تھا بام و در پہلے کبھی
ہم کو بھی چسکا لگا تھا اک پری کے پیار کا
ہم نے بھی غزلیں کہی تھیں حسن پر پہلے کبھی