عمران خان پر حملے کی آزاد تحقیقات کیوں کی جارہی ہیں

ہم اپنی ستر پجھتر سالہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم دائروں میں گھوم رہے ہیں۔ سفر شروع کیا، گھومے اور پھر نقطہ آغاز پر واپس۔ نہ سفر طے ہوا، نہ ہم کسی جگہ پہنچے، نہ کچھ سیکھا اور نہ کچھ سمجھا۔ وہی غلطی دوہرا دی جو پہلے کی تھی۔ بانی پاکستان دنیا سے گئے تو طرح طرح کی افواہوں نے جنم لے لیا۔ سوالات ابھرے، الزامات لگے، سازشی تھیوریاں بنیں اور ہم بحثیت قوم الچھ کر رہ گئے۔ آج بھی ہم اسی طرح الجھے ہوئے ہیں بانی پاکستان کی موت پر۔ نہ گھتی سلجھتی ہے اور نہ ہی ہم آگے بڑھتے ہیں۔ نہ ان کی موت فراموش ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی سرا ہاتھ لگتا ہے۔

وجہ؟

موقعے پر آزاد تحقیقات نہیں ہوئیں۔ موت پر جو افواہوں اور الزامات کا سلسلہ شروع ہوا بعد میں تاریخی کتب میں محفوظ ہو گیا۔ آج بھی تاریخ کے باب کھلتے ہیں تو الزامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے آٹھ بجے کا نیوز چینل ٹاک شو لگ گیا ہے۔ نہ کچھ سمجھ آتی ہے اور نہ کچھ نتیجہ نکلتا ہے۔ لاحاصل مباحث کا سلسلہ ہوتا ہے، شاید جسے مفاد پرست گروہ اور سازشی عناصر ہوا دیتے جاتے ہیں۔ نتیجتاً عوام تقسیم، نوجوان اذہان الجھے ہوئے اور بے بسی کا عالم۔ 

بانی پاکستان کے بعد لیاقت علی خان گئے، پھر محترمہ فاطمہ جناح، پھر ضیا الحق اور پھر بے نظیر۔ سب کی موت معمہ بن گئی۔ آج بھی سوال بن کر کھڑی ہے، جواب جس کا ملتا نہیں۔ دور کی بات نہیں۔ بے نظیر صاحبہ کو ہی لے لیں۔ تین تین اطراف الزامات گھومتے ہیں۔ جرنل پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور تحریک طالبان پاکستان۔سب کردار زندہ ہیں۔ لیکن ہم ستر پجھتر سال پہلے قائد کی موت کی طرح مجرم سے لا علم۔ ہر محقق اور صھافی اپنی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔ 

کیوں؟

اس لیے کہ آزاد تحقیقات کروا کر ہتمی نتائج عوام تک نہیں پہنچائے گئے۔ نہ کوئی سرکاری رپورٹ جاری ہوئی۔ نہ الجھنیں سلجھی۔ نہ سوالات کے جوابات ملے اور نہ ہم باب بند کر کے آگے بڑھے۔ وہی غلطی جو برسوں قبل کی دہراتے گئے، دہراتے گئے۔ دائروں کا سفر رہا۔ نقطہ آغاز ہی نقطہ اختتام ہوا اور پھر وہیں سے آغاز ہوا۔ 

اگر آج عمران خان پر حملے کی آزاد تحقیقات نہیں ہوتیں تو پھر ایک دائرہ شروع ہوگا۔ جس میں الجھنیں ہونگیں، الزامات ہونگے، طعن و تشنی ہوگی اور سازشی تھیوریاں بنیں گی۔ ہر کوئی اپنے تندور میں من چاہی روٹی لگائے گا۔ پھر سوشل میڈیا ہوگا جو ایک کی چار چار لگا کر پھیلائے گا۔ نہ ہم آگے بڑھیں گے، نہ کچھ سفر طے ہوگا، نہ کوئی مجرم کیفر کردار کو پہنچے گا، نہ کوئی بحث بند ہوگی، نہ ہی کوئی نیا باب کھل پائے گا۔ 

ایسے میں اصل نقصان کیا ہوگا؟

آپ کل سے روایتی میڈیا سمیت سوشل میڈیا اٹھا لیں۔ کوئی بات ہو جو کام کی ہوئی ہو۔ کوئی بحث، کوئی تحقیق، کوئی تجزیہ ہو جو عمران خان پر حملے سے ہٹ کر ہو۔ ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ سکوت سا آ گیا ہے، جس کے حیجان میں ہم مبتلا ہو چکے ہیں۔ یہ اصل نقصان ہے۔

قوم کے اذہان، صحافی، دانشور، استاد سب ایسے موضو کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، جس کا نتیجہ نکالنا ان کے بس میں ہی نہیں۔ اگر آزاد تحقیقات کروا کر اس باب کو بند نہ کیا گیا تو آج میڈیا رپورٹس ہیں، کل تاریخی کتب ہونگی۔ یہ بات بار بار سماجی اور سیاسی فورمز پر زیر بحث آئے گی۔ ایسے فورمز جہاں اصل مسائل پر بات ہونا ہوگی۔ ان مسائل کے حل تجویز ہونا ہونگے۔ بالکل جیسے آج ہو رہا ہے۔

یقیناً یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ جو مسلسل ہو رہا ہے۔ آج بھی نئے مقالاجات کے موضوعات ہوتے ہیں آخر قائد کا قاتل کون؟ کیا فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا تھا؟ بیبی کے قتل سے فائدہ کس کا ہوا؟

کل کے مقالاجات، مضامین، مباحث عمران خان کے حملہ آوروں کے لیے ہونگے۔ لاحاصل سوالات کے جوابات کی دوڑ ہوگی۔ قوم سرکس دیکھ رہی ہوگی۔ نہ کوئی مسئلہ سنا جائے گا۔ نہ اس کا حل نکالا جائے گا۔

متعلقہ عنوانات