امارت ہو کہ غربت بولتی ہے

امارت ہو کہ غربت بولتی ہے
بہ ہر صورت شرافت بولتی ہے


وہاں بازار کا ہوتا ہے منظر
جہاں گھر کی ضرورت بولتی ہے


زباں خاموش ہی رہتی ہے لیکن
مرے چہرے کی رنگت بولتی ہے


بظاہر گفتگو ہے مخلصانہ
مگر دل میں کدورت بولتی ہے


وہ پتھر موم بن جائے نہ کیسے
کہ سر چڑھ کے محبت بولتی ہے


زبان علم پر تالے پڑے ہیں
بہ زعم خود جہالت بولتی ہے


زبانیں کاٹ دی جاتی ہیں پھر بھی
رگ و پے سے محبت بولتی ہے


ولیؔ کی زندگی آئینہ صورت
صداقت ہی صداقت بولتی ہے