علم کی شمع اندھیرا نہیں ہونے دیتی
علم کی شمع اندھیرا نہیں ہونے دیتی
اپنے کردار کو میلا نہیں ہونے دیتی
اپنے اسلاف کی تعلیم ہی کچھ ایسی ہے
عزم و ہمت کو جو پسپا نہیں ہونے دیتی
گردش خون رگ و پے میں ابھی جاری ہے
اک یہی سوچ نکما نہیں ہونے دیتی
خندہ پیشانی سے ہر ایک سے پیش آتا ہوں
میری عادت مجھے رسوا نہیں ہونے دیتی
زندگی سے مری وابستہ ہیں یوں رنج و الم
یاد ان کی کبھی تنہا نہیں ہونے دیتی
نہ شکایت ہے تھکن کی نہ گلہ محنت کا
ذمہ داری مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتی
جب سے حالات سے سمجھوتا کیا ہے جھنجھٹؔ
مفلسی میرا تماشا نہیں ہونے دیتی