اک قطرہ خون کیا مرے دل کا ٹپک گیا
اک قطرہ خون کیا مرے دل کا ٹپک گیا
ویرانۂ حیات بداماں مہک گیا
پیراہن دل آتش گل سے لہک گیا
خرمن میں آرزوؤں کے شعلہ بھڑک گیا
آتے ہی ان کی یاد خوشی محو ہو گئی
کہرا چھٹا تو درد کا سورج چمک گیا
مارا پھرا تلاش محبت میں در بدر
اپنے ہی گھر پہنچ کے میں افسوس تھک گیا
اے ضبط دیکھ کم ہوئی جاتی ہے روشنی
شاید مری نظر سے مرا غم جھلک گیا
جب بھی ہوا کہ بولتے کچھ تشنہ آرزو
چشم سیاہ یار کا ساغر کھنک گیا
گم دشت زندگی میں ہوا کاروان شوق
چہرہ غبار رنج و الم سے چمک گیا
برقؔ آگہی نے اپنی اک انگڑائی سی جو لی
دیکھا لباس حسن تمنا مسک گیا