اک نئے عنواں سے تعمیر جہاں کرتے ہیں ہم

اک نئے عنواں سے تعمیر جہاں کرتے ہیں ہم
آج ہر قطرے کو بحر بیکراں کرتے ہیں ہم


عشق میں کب امتیاز ایں و آں کرتے ہیں ہم
جس سے کرتے ہیں محبت بے گماں کرتے ہیں ہم


سعی کچھ کرتے بھی ہیں تو رائیگاں کرتے ہیں ہم
جو ہمیں لازم ہے طالبؔ وہ کہاں کرتے ہیں ہم


بجلیاں بے تاب ہوتی ہیں جلانے کے لئے
جب کبھی قصد بنائے آشیاں کرتے ہیں ہم


جذبۂ مہر و وفا کی آزمائش شرط ہے
امتحاں تم لے چکے اب امتحاں کرتے ہیں ہم


شکریہ بھی لوگ کہہ سکتے ہیں شکوہ بھی اسے
اختیار ایسا کچھ انداز بیاں کرتے ہیں ہم


پھر کسی نا مہرباں کی یاد تڑپانے لگی
پھر کسی نا مہرباں کو مہرباں کرتے ہیں ہم


آرزوئیں حسرتیں مایوسیاں ناکامیاں
ہیں یہی عنواں جو زیب داستاں کرتے ہیں ہم


پیار کیوں آئے نہ اپنی فطرت معصوم پر
اپنے دشمن کو بھی اپنا رازداں کرتے ہیں ہم


آنسوؤں سے تازہ تر ہیں یاد یاران قدیم
داغہائے دل کو رشک گلستاں کرتے ہیں ہم


جب یہی ایماں ہے تو پھر کیا کسی سے مشورہ
میکدے میں بیعت پیر مغاں کرتے ہیں ہم
راہ سے کیا کام رہبر کی ہمیں کیا احتیاج
بے نشاں ہو کر تلاش بے نشاں کرتے ہیں ہم
اب خدا جانے کہ اس میں بیش کیا ہے کم ہے کیا
دل نظر احساس سب نذر بتاں کرتے ہیں ہم