اک مصیبت یہ ہے کہ دل مرا برہم بھی ہے
اک مصیبت یہ ہے کہ دل مرا برہم بھی ہے
اور اس دل میں تری یاد کا ماتم بھی ہے
فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ کیا چننا ہے
دامن وقت میں آنسو بھی ہیں مرہم بھی ہے
مجھ سے ملنے کی خوشی مجھ کو بہت ہے لیکن
اک طرف تم سے بچھڑنے کا مجھے غم بھی ہے
سرد ہے رات دسمبر کا مہینہ اور میں
اور اس پر یہ ترے ہجر کا موسم بھی ہے
روپ عورت کے بہت ہیں کسے معلوم نہیں
ہے کہیں ہندہ بنی اور کہیں مریم بھی ہے
ایک میں ہی نہیں نکلا ہوں تمہارے دل سے
ہم سا اک خلد سے نکلا ہوا آدم بھی ہے
کیسے سمجھے کوئی چہرے کے تأثر سے تجھے
لب پہ مسکان بھی ہے آنکھ میں شبنم بھی ہے
تو اکیلا تو نہیں عشق کے ہاتھوں برباد
جیسا تیرا وہی رضوانؔ کا عالم بھی ہے