اک بے ہنر ہوں اور ہنر چاہتی ہوں میں

اک بے ہنر ہوں اور ہنر چاہتی ہوں میں
اب دھوپ کے سفر میں شجر چاہتی ہوں میں


تنہائیوں کا خوف ہے گھیرے ہوئے مجھے
اپنی گلی سے اس کا گزر چاہتی ہوں میں


لکھا ہے اپنے نام سے اپنے پتے پہ خط
مدت کے بعد اپنی خبر چاہتی ہوں میں


یہ ٹھیک ہے کہ تم سے محبت نہیں مجھے
یہ بھی ہے ٹھیک تم کو مگر چاہتی ہوں میں


ہے کیا عجب کہ ترک تعلق کے باوجود
چہرے پہ اپنے اس کی نظر چاہتی ہوں میں