اک اجنبی کو دل نے یگانہ بنا لیا

اک اجنبی کو دل نے یگانہ بنا لیا
بھولی ہوئی تھی بات فسانہ بنا لیا


کیا انتہائے شوق تھی دیدار کے لئے
ہر رہ گزر کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا


قول و قرار و رسم وفا کچھ نہ کر سکے
ہر بار اس نے کوئی بہانہ بنا لیا


اے شمع تیرے حسن تجلی کا ہے کمال
مشتاق دید کو بھی دوانہ بنا لیا


یک بارگی جو سامنا ان سے کہیں ہوا
تھا حسن اتفاق بہانہ بنا لیا


دستور اس جہاں کا نرالا ہے دوستو
دیکھا غریب کو تو نشانہ بنا لیا


صادقؔ بھی داستان وفا کیا بیاں کریں
کرکے بہم اشارے فسانہ بنا لیا