ادھر ادھر جو چراغ ٹوٹے پڑے ہوئے ہیں

ادھر ادھر جو چراغ ٹوٹے پڑے ہوئے ہیں
سلام ان کو یہ آندھیوں سے لڑے ہوئے ہیں


دکھا رہے ہیں ہمیں جو اپنا پھلا کے سینہ
ہمیں پتہ ہے یہ کس کے بل پر کھڑے ہوئے ہیں


گلے ملانے کی صلح کی ہو پہل کدھر سے
ابھی تو دونوں ہی اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں


حقیقتیں سب دبی ہوئی ہیں انہی کے نیچے
سیاسی لوگوں نے ایسے قصے گھڑے ہوئے ہیں


دکھائی دینے لگے ہیں رشتے تمام بونے
ابھی تو صاحب کما کے دولت بڑے ہوئے ہیں