ادھر سے بھی تو ہوائے بہار گزری ہے

ادھر سے بھی تو ہوائے بہار گزری ہے
کچھ ایک بار نہیں بار بار گزری ہے


گلا نہیں یہ فقط عرض حال ہے اے دوست
ترے بغیر بہت بے قرار گزری ہے


وہی تو میری حیات سفر کی پونجی ہے
وہ زندگی جو سر رہ گزار گزری ہے


قلم لیے ہوئے سوچا کیے کہ کیا لکھیں
کچھ اس طرح بھی شب انتظار گزری ہے


بھلا سکیں گے نہ اس کو قفس میں اے صیاد
وہ دو گھڑی جو سر شاخسار گزری ہے


کبھی کبھی تو مری بر محل خموشی بھی
انہیں فغاں کی طرح ناگوار گزری ہے


ہوئیں جو دل سے مرے بدگمانیاں ان کو
تو شاعری بھی مری ناگوار گزری ہے


خزاں میں بھی نہ کسی کی خدا کرے گزرے
وہ جس طرح مری فصل بہار گزری ہے


ابھر گئی ہے کہیں پر رضاؔ جو تلخیٔ فکر
مرے مزاج غزل پر وہ بار گزری ہے