حسن والے وہ کام کرتے ہیں

حسن والے وہ کام کرتے ہیں
لفظ جھک کر سلام کرتے ہیں


عمر بھر یہ غلام نہ سمجھا
آپ کیسے غلام کرتے ہیں


خوش نصیبی گلوں پہ ختم ہوئی
ان کی زلفوں میں شام کرتے ہیں


قصۂ عشق آگے بڑھ نہ سکا
وہ مرا احترام کرتے ہیں


با ادب با ملاحظہ گھر میں
اب کبوتر قیام کرتے ہیں


فتویٰ تعبیر پر ہے لاگو حضور
خواب کو کیوں حرام کرتے ہیں


جام تو توڑ بیٹھے منبر پر
اب سبو کو امام کرتے ہیں


چار خانے بنائے بیٹھا ہے
دل ترا انتظام کرتے ہیں


سب شروع کرتے ہیں بہ نام خدا
ہم خدا پر تمام کرتے ہیں


بن ملے جن سے قیسؔ عشق ہوا
یہ غزل ان کے نام کرتے ہیں