حدود ذات میں اوروں کا ذکر ہی کیا ہے

حدود ذات میں اوروں کا ذکر ہی کیا ہے
خود آدمی بھی نہ سمجھا کہ آدمی کیا ہے


یہ فاصلے جو ترے قرب کی ضمانت ہیں
سمٹ گئے تو بتاؤں گا زندگی کیا ہے


ہمی کو خاک سمجھ لو تمہاری عمر دراز
یہ تذکرہ تو مکمل ہو آدمی کیا ہے


حجاب ذات سے باہر کہاں ابھی ہم لوگ
ابھی یہ کون بتائے کہ آدمی کیا ہے


کہا نہ تھا کہ محبت کا تذکرہ نہ کرو
کسے خبر تھی کہ معراج زندگی کیا ہے


سوال یہ ہے کہ تم کیا نگاہ رکھتے ہو
نیاز مند تو واقف ہے بندگی کیا ہے


روا نہیں ہے مسلسل گریز نقد و نظر
کبھی کبھی تو بتاؤ کہ زندگی کیا ہے


ابھی تو مجھ سے خدائی کی حد میں بات کرو
خدا بنو تو بتانا کہ آدمی کیا ہے


جبین شوق پہ سجدوں کے داغ اے انجمؔ
یہ بندگی ہے تو معیار بندگی کیا ہے