ہونے کو تو خلقت میں تری ہوں گے جہاں اور

ہونے کو تو خلقت میں تری ہوں گے جہاں اور
پر تیرا یہ در چھوڑ کے جاؤں میں کہاں اور


یہ دیر سے بد ظن وہ گریزاں ہے حرم سے
جیسے کہ حقیقت ہو یہاں اور وہاں اور


رہ جائے نہ پھر شکوۂ بیداد کا امکاں
سینہ جو ہوا چاک تو کٹ جائے زیاں اور


ہم کون ہیں کیا ہیں یہ نہیں جانتے خود بھی
ہم سا بھی کوئی ہوگا بھلا ہیچ مداں اور


تقلید طبیعت کو گوارا نہیں اے نورؔ
چلتا ہوں بناتا ہوا خود اپنے نشاں اور