ہو بزدلی کا بہانا تو صبر کیا ٹوٹے

ہو بزدلی کا بہانا تو صبر کیا ٹوٹے
اگر ہے ضبط تو اب اس کی انتہا ٹوٹے


نئے چراغ جلیں دھندھ کی ردا ٹوٹے
یہ میرے خواب تھے لیکن یہ بارہا ٹوٹے


میری طلب میں کمی ہے نہ حوصلوں میں مگر
یہ حسرتوں کی تمنا ہے دل مرا ٹوٹے


ہے بے رخی بھی تیری کچھ تو آندھیوں کی طرح
چراغ دل کی مرے جس میں التجا ٹوٹے


خطا بھلے نہ ہو دشینت کی مگر پھر بھی
یہاں وہ ریت ہے جس میں شکنتلا ٹوٹے


یہاں پہ دیر و حرم کے ہیں مسئلے ساقی
خدا وہ دن نہ دکھائے کہ میکدہ ٹوٹے


ضمیر بیچ کے جینے سے موت ہے اچھی
نہ سچ دکھائے تو بہتر ہے آئینہ ٹوٹے


یہ مشکلات بھی اکتا گئیں ہیں اب مجھ سے
ہو آسماں بھی تو وہ کتنی مرتبہ ٹوٹے


زباں وہ کیسے بھلا گھنگھرؤں کی سمجھے گا
کہ جس کے سامنے چوڑی کی التجا ٹوٹے


تری خوشی کے لیے دل تجھے میں دے دوں مگر
جو چور چور ہے آخر وہ اور کیا ٹوٹے


ملے گی رازؔ امیروں کو کب تلک شہرت
میں چاہتا ہوں کہ اب یہ پرمپرا ٹوٹے